جواب۔۔!! الحمدللہ..!
*9 ذوالحج یعنی عرفہ کا ایک روزہ دو سال کے گناہوں کی معافی کا سبب*
((عرفہ کی فضیلت میں مزید تفصیل دیکھیں _سلسلہ نمبر-71))
*لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں لوگوں نے اس فضیلت والے روزے کو بھی اختلاف کی بھینٹ چڑھا دیا اور لوگ روزہ رکھنے میں اختلاف کا شکار ہو گئے.
اختلاف کا سبب دراصل رویت ہلال کی رو سے اور مختلف ممالک میں قمری تاریخ کے مختلف ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس اختلاف کا کوئی واضح ثبوت کم و بیش نصف صدی پہلے تک نہیں ملتا البتہ اب کچھ سالوں سے یہ اختلاف ابھر کر سامنے آ رہا ہے،حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ جس ملک میں جب 9۔ذی الحجہ ہوگی،وہ یومِ عرفہ ہوگا اور وہاں کے لوگوں کو اسی دن یومِ عرفہ کا روزہ رکھنا ہوگا، اس کی دلیل میں صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث ہے :
اس حدیث سے چاند دیکھنے کی اور قمری تاریخ کی اہمیت دیکھی جا سکتی ہے۔
اگر برصغیر ، جاپان و کوریا کے مسلمان ، بغیر چاند دیکھے ، سعودی عرب کے مطابق رمضان کے روزے شروع کر دیں اور عید بھی منا لیں تو کیا یہ صحیح ہوگا؟
اس حدیث میں فقہائے مدینہ نے اہلِ شام کے ایک دن پہلے روزہ رکھنے کی خبر کو بنیاد بنا کر اہلِ مدینہ کو یہ فتویٰ نہیں دیا کہ تم ایک روزہ قضا کرو کیونکہ شام میں چاند ہو چکا تھا۔ بلکہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ان کی رویت(چاند) ان کے لیے اور ہماری رویت ہمارے لیے ہے اور (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا ہی حکم دیا ہے،،
پہلا اعتراض
*دوسری طرف کچھ لوگوں کا اختلاف ہے کہ موجودہ تیز تر وسائلِ نقل و حرکت اور ذرائع ابلاغ کے پیشِ نظر ، حجاجِ کرام کے میدانِ عرفات میں ہونے کی خبر لمحہ بہ لمحہ دنیا بھر میں پہنچ رہی ہوتی ہے ، لہذا یومِ عرفہ کا روزہ بھی اسی دن رکھا جائے جب حجاج کرام ، عرفات میں وقوف کرتے ہیں*
جواب:
اس عقلی دلیل پر چند اشکالات وارد ہوتے ہیں :
اور کچھ ایسے ممالک بھی ہے جہاں سعودیہ سے بھی پہلے چاند نظر آ جاتا، تو کیا وہ لوگ 10 ذوالحجہ یعنی عید کے دن عرفہ کا روزہ رکھیں گے؟؟
دوسرا اعتراض
*کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عرفہ کا روزہ کا وقوف عرفات یعنی جگہ سے متعین ہے،*
جب سعودیہ کے مفتی شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
چاندكا مطلع مختلف ہونے كي صورت ميں جب يوم عرفہ مختلف ہو جائے تو كيا ہم اپنےعلاقے كي رؤيت كےمطابق روزہ ركھيں يا كہ حرمين كي رؤيت كا اعتبار كيا جائےگا؟
صحيح يہي ہے كہ: مطلع مختلف ہونےكي بنا پر چاند بھي مختلف ہيں، مثلا جب مكہ مكرمہ ميں چاند ديكھا گيا تو اس كےمطابق يہاں نوتاريخ ہو گي، اور كسي دوسرے ملك ميں مكہ سے ايك دن قبل چاند نظر آيا تو ان كےہاں دسواں دن يوم عرفہ ہوگا، لھذا ان كےليے اس دن روزہ ركھنا جائز نہيں كيونكہ يہ عيد كا دن ہے ، اور اسي طرح فرض كريں كہ رؤيت مكہ سے ليٹ ہو اور اور مكہ مكرمہ ميں نوتاريخ ہو تو ان كےہاں چاند كي آٹھ تاريخ ہوگي تو وہ اپنے ہاں نو تاريخ كےمطابق روزہ ركھيں گے جو كہ مكہ كےحساب سے دس تاريخ بنےگي، راجح قول يہي ہے .
_______&___________
شیخ حافظ ابو یحییٰ نورپوری صاحب لکھتے ہیں کہ!!
اگر کوئی پاکستانی یا ہندوستانی مسلمان اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو مدنظر رکھ کر اپنے قبلے کا تعین کرنے لگے تو یقینا وہ غیرقبلہ کو قبلہ بنا بیٹھے گا، کیوں کہ پاکستانی و ہندوستانی مسلمانوں کا قبلہ مشرق ومغرب نہیں، بل کہ شمال و جنوب کی درمیانی سمت میں ہے۔
________&_________
*یوم عرفہ ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے*
سعودی عرب طائف کے مشہور بلاگر اور شیخ مقبول احمد سلفی لکھتے ہیں:
یوم عرفہ سے مراد ذو الحجہ کی نویں تاریخ ہے، اس بات کو مختلف طریقے سے استدلال کرکے بتلاؤں گا ۔
وتر سے مراد یوم عرفہ ہے اس بابت بہت سارے اقوال ہیں جو تفاسیر میں دیکھے جاسکتے ہیں ،
*یوم عرفہ اور عرفات میں فرق*
________&_________
*عرفہ کے روزہ سے متعلق اشکالات کا جواب*
*قائلین صیام عرفات کے ساتھ چند محاکمہ*
*ایک اہم نکتہ*
____________&_____________
*اس تمام تفصیل کے بعد سمجھ آئی کہ عرفہ کا روزہ 9 ذوالحجہ کو ہی رکھا جائے گا*
اللہ پاک کمی کوتاہی معاف فرمائیں اور حق بات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین..!!
(ماخوذ از : عرفہ کے روزہ کا تحقیقی جائزہ از مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ )